یوں ستم ڈھائے گئے ہیں ترے دیوانے پر
زخم خود گریہ کناں ہے مرے افسانے پر
مجھ کو یکسر ہی الگ رہنا پڑا ہے تم سے
ایسا ہوتا ہے کہیں عشق کے مر جانے پر
پہلے یک لخت چلے آتے تھے ملنے کے لیے
اب توجہ بھی نہیں ہے مرے چلانے پر
سوزش غم کا چراغوں کو کہاں اندازہ
رات چیخ اٹھتی ہے جلتے ہوئے پروانے پر
میں سمجھتا تھا مرا دل ہے مری مانے گا
اسی کافر کا ہوا جاتا ہے سمجھانے پر
درد فرقت ہی مری موت کا ساماں ہے قمرؔ
دل کسی طور بہلتا نہیں بہلانے پر

غزل
یوں ستم ڈھائے گئے ہیں ترے دیوانے پر
قمر عباس قمر