EN हिंदी
یوں پہنچنا ہے مجھے روح کی طغیانی تک | شیح شیری
yun pahunchna hai mujhe ruh ki tughyani tak

غزل

یوں پہنچنا ہے مجھے روح کی طغیانی تک

فیض خلیل آبادی

;

یوں پہنچنا ہے مجھے روح کی طغیانی تک
جس طرح رسی سے جاتا ہے گھڑا پانی تک

کاٹنی پڑتی ہے ناخن سے تکن کی زنجیر
یوں ہی آتی نہیں مشکل کوئی آسانی تک

زندگی تجھ سے بنائے ہوئے رشتے کی ہوس
مجھ کو لے آئی ہے دنیا کی پریشانی تک

ایسے جراحوں کا قبضہ ہے سخن پر افسوس
کر نہیں سکتے جو لفظوں کی مسلمانی تک

اپنے اندر میں کیا کرتا ہوں راجا کی تلاش
اس وسیلے سے پہنچنا ہے مجھے رانی تک

ایسے لفظوں کو بھی بے عیب بنایا ہم نے
جن کی جائز ہی نہیں ہوتی تھی قربانی تک

حسن کا پاؤں دباتی ہے جہاں شوخ ہوا
عشق لے آیا ہے مجھ کو اسی ویرانی تک

فیضؔ ہم لوگ ہیں اک ایسی کچہری کے وکیل
فوجداری سے پہنچتے ہیں جو دیوانی تک