یوں لوگ چونک چونک کر انگلی اٹھائے ہیں
جیسے ہم آج پہلے پہل مسکرائے ہیں
اکثر کھلی فضاؤں میں بھی سنسنائے ہیں
ہم پر ہمارے گھر نے وہ پتھر چلائے ہیں
اے موج گل ادھر کا ابھی رخ نہ کیجیو
کچھ لوگ تازہ تازہ بیاباں میں آئے ہیں
محرومیوں کے زہر سے ہم کب کے مر چکے
یہ تو اب اپنے جسم کا لاشہ اٹھائے ہیں
ہاں ہم کو اعتراف ہے اس کا کہ زیست کو
آداب ہم نے جرم وفا کے سکھائے ہیں
دوڑے ہیں لوگ سنگ تغافل لئے ہوئے
ہم جب بھی اپنے شہر کے نزدیک آئے ہیں
فرصت کہاں نصیب قیام و قرار کی
ہم لوگ وقت شام درختوں کے سائے ہیں
اس درجہ بھیڑ اتنی گھٹن ہے کہ الاماں
یادوں کا شہر چھوڑ کے ہم بھاگ آئے ہیں
ویرانۂ خیال کی وحشت نہ کم ہوئی
حالانکہ بات بات پہ ہم مسکرائے ہیں
چہرے پہ پڑ رہی ہے تری بے رخی کی دھوپ
سینے میں ہر طرف تری یادوں کے سائے ہیں
رفتار زندگی ہے کہ مانگے ہے بجلیاں
ہم ہیں کہ بے حسی کو گلے سے لگائے ہیں
یاروں کو حال وادئ غربت کا کیا لکھیں
محسوس ہو رہا ہے ہم اپنے گھر آئے ہیں
ضبط غم حیات بھی جن کو نہ پی سکا
نازشؔ وہ اشک ہم نے غزل میں چھپائے ہیں
غزل
یوں لوگ چونک چونک کر انگلی اٹھائے ہیں
نازش پرتاپ گڑھی