یوں لگا دیکھ کے جیسے کوئی اپنا آیا
تھی نگاہوں میں جو صورت کوئی ویسا آیا
دن گزارے تو بہت کاٹ دیئے ماہ و سال
اپنے گھر میں نہ کوئی آپ کے جیسا آیا
ایسا ماحول کہ پل بھر نہ جہاں رک پائے
کیا کبھی آپ کو اس طرح بھی جینا آیا
جو کیا ہم نے وہ سب تم نے بھلایا کیسے
اتنے احسانوں کا بدلہ نہ چکانا آیا
زندگی کاٹ دی خود اپنی ہی تعریفوں میں
دوسرا کیا ہے سمجھنا بھی نہ اتنا آیا
ترش روئی سے ملا آپ کو کیا کیا اب تک
آپ کو یہ بھی تو اب تک نہ سمجھنا آیا
ہے خدا ایک تو پھر کس کی پرستش کرتے
دوسرا نام وصیہؔ کو نہ جپنا آیا

غزل
یوں لگا دیکھ کے جیسے کوئی اپنا آیا
فاطمہ وصیہ جائسی