یوں ہی ہر بات پہ ہنسنے کا بہانہ آئے
پھر وہ معصوم سا بچپن کا زمانہ آئے
کاش لوٹیں مرے پاپا بھی کھلونے لے کر
کاش پھر سے مرے ہاتھوں میں خزانہ آئے
کاش دنیا کی بھی فطرت ہو مری ماں جیسی
جب میں بن بات کے روٹھوں تو منانا آئے
ہم کو قدرت ہی سکھا دیتی ہے کتنی باتیں
کاش استادوں کو قدرت سا پڑھانا آئے
آہ سہسا کبھی اسکول سے چھٹی جو ملے
چیخ کر بچوں کا وہ شور مچانا آئے
آج بچپن کہیں بستوں میں ہی الجھا ہے سحابؔ
پھر وہ تتلی کو پکڑنا وہ اڑانا آئے
غزل
یوں ہی ہر بات پہ ہنسنے کا بہانہ آئے
اجے سحاب