یوں چپ ہے شہر جیسے کہ کچھ بھی ہوا نہ ہو
شاید اب اس کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو
کانپا ہے برگ برگ سا جو بے سبب ابھی
یہ جسم آندھیوں کا کوئی راستہ نہ ہو
میں تھک چکا ہوں دشت مسافت کی دھوپ میں
کوئی سراب راہ مری دیکھتا نہ ہو
طغیان بے وفائی میں ڈوبا رہوں میں کاش
میرے نصیب میں تجھے اب دیکھنا نہ ہو
ابھری ہے خشک پتوں میں اک چیخ دور تک
بے رحم کوئی پاؤں انہیں روندتا نہ ہو
شمع طرف جلانے سے پہلے ہی دیکھ لو
یہ دشت نامرادیٔ دل کا دیا نہ ہو
جو شخص کل ملا تھا مصورؔ بہ طرز خاص
اس کی ہی شکل کا وہ کوئی دوسرا نہ ہو
غزل
یوں چپ ہے شہر جیسے کہ کچھ بھی ہوا نہ ہو
مصور سبزواری