یوں باغ کوئی ہم نے اجڑتا نہیں دیکھا
مدت سے کسی پھول کا چہرہ نہیں دیکھا
اس شہر میں شاید کوئی دل والا نہیں ہے
جو حسن کہیں بنتا سنورتا نہیں دیکھا
صیاد سے گل کرتے رہے جان کا سودا
مالی نے لہو کا کوئی دریا نہیں دیکھا
جو سکھ کے اجالے میں تھا پرچھائیں ہماری
اب دکھ کے اندھیرے میں وہ سایا نہیں دیکھا
ادراک کی سرحد پہ کئی بار گیا ہوں
جو حد سے گزر جاتا وہ لمحہ نہیں دیکھا
خوددارئ انساں کو اماں کیسے ملے گی
مدت سے زمانے میں مسیحا نہیں دیکھا

غزل
یوں باغ کوئی ہم نے اجڑتا نہیں دیکھا
یشپال گپتا