یوں اشک برستے ہیں مرے دیدۂ تر سے
جس طرح سے ساون کی گھٹا جھوم کے برسے
ہاں اشک ندامت جو گرے دیدۂ تر سے
وہ دامن عصیاں پہ نظر آئے گہر سے
ماحول تو بدلا ہے مری جہد نے اکثر
ہاں میں نہیں بدلا کبھی ماحول کے ڈر سے
دنیا نہ کہیں مجھ کو نگاہوں سے گرا دے
اب اتنا گرا دو نہ مجھے اپنی نظر سے
دیکھے جو کوئی سادہ مزاجی تو یہ سمجھے
واقف ہی نہیں آپ کسی عیب و ہنر سے
جس راہ میں گزری ہے مرے سر پہ قیامت
سو بار تو گزرا ہوں اسی راہ گزر سے
اس وقت جو گزری ہے نہ پوچھو اسے وصفیؔ
ٹکرائی ہے جب ان کی نظر میری نظر سے
غزل
یوں اشک برستے ہیں مرے دیدۂ تر سے
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی