EN हिंदी
یہ زندگی تو مسلسل سوال کرتی ہے | شیح شیری
ye zindagi to musalsal sawal karti hai

غزل

یہ زندگی تو مسلسل سوال کرتی ہے

رخشاں ہاشمی

;

یہ زندگی تو مسلسل سوال کرتی ہے
مگر جواب وہی خامشی ٹھہرتی ہے

ترے خیال کے ساحل سے دیکھتی ہوں میں
تری ہی شکل ہر اک موج سے ابھرتی ہے

کسی رقیب سے ملتی ہے جب خبر تیری
تجھے پتہ ہے مرے دل پہ کیا گزرتی ہے

گلی گلی میں ملیں گے غزل کے دیوانے
مگر یہ شوخ بہت کم کسی پہ مرتی ہے

میں سحر میں تری باتوں کے کھوئی رہتی ہوں
کسی کی بات مرے دل میں کب اترتی ہے

ذرا سی دیر کو رکتا تو ہے سفر لیکن
کسی کے جانے سے کب زندگی ٹھہرتی ہے

گنوا کے خود کو بھی پایا نہ میں نے کچھ رخشاںؔ
کبھی کبھی یہی لا حاصلی اکھرتی ہے