یہ زخم زخم بدن اور نم فضاؤں میں
بھٹک رہا ہوں لیے اضطراب پاؤں میں
یہ بے لحاظ نگاہیں یہ اجنبی چہرے
پنپ رہا ہے کوئی شہر جیسے گاؤں میں
بچا کے موت سے انسان خود کو رکھ لیتا
جو گھنگھرو ہوتے کہیں حادثوں کے پاؤں میں
یہ ایک روز ہمارا وجود ڈس لے گا
اگل رہے ہیں جو یہ زہر ہم ہواؤں میں
ہر ایک پل مرے ہم پھر بھی زندگی چاہی
غضب کشش رہی کمبخت کی اداؤں میں
وہ گھر بنا کے بہاروں کا لطف لیتے ہیں
جو تنکا تنکا جمع کرتے ہیں خزاؤں میں

غزل
یہ زخم زخم بدن اور نم فضاؤں میں
رام اوتار گپتا مضظر