یہ اجالا ہر اک شے کو چمکا گیا
آئنہ دل کا کچھ اور دھندلا گیا
آج مغموم ہے وہ سر آئینہ
زلف الجھی تو میرا خیال آ گیا
اپنی بربادیوں کا مجھے غم نہیں
غم یہ ہے کس طرح تجھ سے دیکھا گیا
اتنی فرصت کہاں تھی کہ ہم سوچتے
عشق میں کیا ہوا، کیا ملا، کیا گیا
لٹ گیا جہد ہستی میں احساس بھی
زندگی کے لئے ہائے کیا کیا گیا
جس کے ہونٹوں کے دامن میں کچھ بھی نہ تھا
جب اٹھا بزم سے گیت برسا گیا

غزل
یہ اجالا ہر اک شے کو چمکا گیا
مشتاق نقوی