یہ ترے لمس کا احساس جواں تر ہو جائے
یہ ترے قرب میں ہر سانس جواں تر ہو جائے
چاہ اک دیر سے اک راہ تکا کرتی ہے
آؤ پہلے کہ وہاں گھاس جواں تر ہو جائے
ہیں کئی چہرے گزرتے ہوئے راہ دل سے
دیکھیے کون سا الماس جواں تر ہو جائے
رسم دنیا کے سلاسل میں گرفتاری ہے
مت ٹھہرنا کہ کہیں پھانس جواں تر ہو جائے
بزم الفت کی گرفتاری سے کیسے بچ پائیں
کس کو معلوم کہ کب آس جواں تر ہو جائے
ہم سنجوئے ہوئے رکھے ہیں تری یادوں کو
وقت آئے کہ جو ہے پاس جواں تر ہو جائے
اس کی منزل کا پتا کس کو ملا ہے اب تک
ہاں وہی بیدل برلاس جواں تر ہو جائے
غزل
یہ ترے لمس کا احساس جواں تر ہو جائے
اخلاق احمد آہن