یہ صبح و شام مری ہے نہ ساز و رخت مرا
ہے کوئی اور جو کرتا ہے بندوبست مرا
دماغ سیر نفس سوز و ساز رنج و نشاط
میان بیم و رجا ہے یہ بود و ہست مرا
مجھے ہے ذرۂ خاکی بھی مطلع گردوں
بلند بیں ہے خیال بلند و پست مرا
مرے فسانے میں یزداں بھی اہرمن بھی مگر
وہ ڈھونڈھتا رہا عنوان سرگزشت مرا
یہ لڑکھڑاتے ستارے یہ جوئے مست خرام
بکھر رہا ہے خیال جنوں پرست مرا
مرے ندیم دل و جاں پہ خسروی تسلیم
شہی عصائے دل آرا کی تاج و تخت مرا
فلک نما تھا جمال غزال رم خوردہ
اسی کے ساتھ گیا آسمان بخت مرا
نہ جانے کیوں اسے سچ ناگوار گزرا ہے
کہ دل نواز تھا لہجہ نہ تھا کرخت مرا
غزل
یہ صبح و شام مری ہے نہ ساز و رخت مرا
سید امین اشرف