یہ ستم اک خواہش موہوم پر
لطف فرما خاطر مغموم پر
اے مسرت میرے غم خانے سے دور
یہ گرانی اور مرے مقسوم پر
پرسش حالات غم سے درگزر
رحم فرما اب دل مرحوم پر
بندہ پرور صرف اتنی عرض تھی
فرض کچھ خادم کے ہیں مخدوم پر
صبر کرتی ہی رہی بے چارگی
ظلم ہوتا ہی رہا مظلوم پر
کیا مبصر دیدۂ خوں بار تھا
تبصرہ کرتا رہا مقسوم پر
اک تبسم تھا جواب آرزو
وسعتیں قرباں ہوئیں مفہوم پر
ابتدائے غم کی دور اندیشیاں
شاد ہوں انجام نا معلوم پر
آج تک اکبرؔ ہوں میں ثابت قدم
جادۂ خود دارئ موہوم پر

غزل
یہ ستم اک خواہش موہوم پر
اکبر حیدری