یہ ستم اور کہ ہم پھول کہیں خاروں کو
اس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکر تلافی تجھے اے جان وفا
دھن ہے اب اور ہی کچھ تیرے طلب گاروں کو
تن تنہا ہی گزاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گھبرا کے پکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پھوٹ پڑے روشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اڑا لے گیا اندھیاروں کو
سارے اس دور کی منہ بولتی تصویریں ہیں
کوئی دیکھے مرے دیوان کے کرداروں کو
نالۂ آخر شب کس کو سناؤں ناصرؔ
نیند پیاری ہے مرے دور کے فنکاروں کو
غزل
یہ ستم اور کہ ہم پھول کہیں خاروں کو
ناصر کاظمی