یہ صنم روایت و نقل کے ہبل و منات سے کم نہیں
تیرا فکر واعظ حق نوا کسی سومنات سے کم نہیں
کہیں برق چمکے میں جل اٹھوں کوئی تارا ٹوٹے میں رو پڑوں
یہ دل ستم زدہ ہم نشیں دل کائنات سے کم نہیں
کہیں رنگ و نور جمال ہے کہیں بیم و فکر مآل ہے
کہیں شام غیرت صبح ہے کہیں دن بھی رات سے کم نہیں
جسے کہئے رقص شرار غم وہ اگر ہو شامل غم تو پھر
غم دل ہو یا غم زندگی غم کائنات سے کم نہیں
یہ سرور اخترؔ دل زدہ رجز بہار و شباب ہے
یہ بلند ہوتی ہوئی فغاں علم حیات سے کم نہیں
غزل
یہ صنم روایت و نقل کے ہبل و منات سے کم نہیں
اختر انصاری