EN हिंदी
یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں | شیح شیری
ye ruke ruke se aansu ye dabi dabi si aahen

غزل

یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں

مجروح سلطانپوری

;

یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں
یوں ہی کب تلک خدایا غم زندگی نباہیں

کہیں ظلمتوں میں گھر کر ہے تلاش دشت رہبر
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش پا سے راہیں

ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں

کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں

مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشان سربلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں