یہ راز اس نے چھپایا ہے خوش بیانی سے
کہ میرا ذکر بھی غائب ہے اب کہانی سے
میں خواہشوں کے نمک کا ہوں ڈھیر مت پوچھو
جو میرا خوف ہے جذبوں کے بہتے پانی سے
غرور توڑنا میں چاہتا ہوں دریا کا
بدل دے تو مری لکنت کو اب روانی سے
سخن میں کچھ نہیں اعجاز کی تمنا ہے
سو عرض کرنے لگے ہم بھی بے زبانی سے
میں ہیرا تو نہیں پوشیدہ کوئلے میں کہیں
کبھی کبھی تو لگے ڈر بھی بے نشانی سے
پہاڑ جیسے دنوں کو تو کاٹ لوں لیکن
نکل نہ پاؤں میں اک رات کی گرانی سے
جو کام جبر کی آندھی بھی کر نہیں پاتی
وہ کام ہوتا ہے خاموش مہربانی سے
مزا لیا گیا آوارگی کا خوب سہیلؔ
ملول میں نہ ہوا اپنی بے مکانی سے
غزل
یہ راز اس نے چھپایا ہے خوش بیانی سے
سہیل اختر