یہ نشست غم ہے اس کی کوئی ریت تو نبھاؤ
میں غزل سنا رہا ہوں مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ
شب تار کا فسانہ کبھی مختصر بھی ہوگا
کوئی شمع تو جلاؤ کوئی جام تو اٹھاؤ
یہ غرور تیغ قاتل کبھی سرنگوں بھی ہوگا
سر بزم چوٹ کھا کر سر راہ مسکراؤ
تمہیں سر بلند پا کر چلی جائے سر جھکا کر
کبھی مرگ ناگہاں سے ذرا یوں بھی پیش آؤ
ذرا دیکھو گردنوں پر سر شام جھک چلے ہیں
یہ کنول ہیں کتنے پیارے انہیں دار پر سجاؤ
اسے کھینچ لو پلنگ سے وہ جو سو کے تھک گیا ہے
یہ جو تھک کے سو گیا ہے اسے پیار سے جگاؤ
رہا سر ہمیشہ تانے سہے ہنس کے تازیانے
وہ گریز پا ہوا کیوں کوئی سوزؔ کو مناؤ

غزل
یہ نشست غم ہے اس کی کوئی ریت تو نبھاؤ
کانتی موہن سوز