یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں
دل وہ ٹوٹا ہوا برتن ہے کہ بھرتا ہی نہیں
ایک الجھن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
اک تماشا ہے کہ آنکھوں سے اترتا ہی نہیں
اک ترے ہجر کی میعاد کہ کاٹے نہ کٹے
اک ترے وصل کا لمحہ کہ ٹھہرتا ہی نہیں
دوستو لاؤ کوئی کشتئ نوح امید
اب کے پانی وہ چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں
اشک خون دل وحشی دبے پاؤں والا
اک مسافر ہے کہ پلکوں سے گزرتا ہی نہیں
عمر بھر دیتے رہے ہیں تجھے تاوان وفا
سود در سود ترا قرض اترتا ہی نہیں

غزل
یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں
شاہنواز زیدی