EN हिंदी
یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں | شیح شیری
ye nahin ki wo karam parwari karta hi nahin

غزل

یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں

شاہنواز زیدی

;

یہ نہیں کہ وہ کرم پروری کرتا ہی نہیں
دل وہ ٹوٹا ہوا برتن ہے کہ بھرتا ہی نہیں

ایک الجھن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
اک تماشا ہے کہ آنکھوں سے اترتا ہی نہیں

اک ترے ہجر کی میعاد کہ کاٹے نہ کٹے
اک ترے وصل کا لمحہ کہ ٹھہرتا ہی نہیں

دوستو لاؤ کوئی کشتئ نوح امید
اب کے پانی وہ چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں

اشک خون دل وحشی دبے پاؤں والا
اک مسافر ہے کہ پلکوں سے گزرتا ہی نہیں

عمر بھر دیتے رہے ہیں تجھے تاوان وفا
سود در سود ترا قرض اترتا ہی نہیں