یہ کیا کہ میرے یقیں میں ذرا گماں بھی ہے
مجھے ہے شک کہ ہے جو کچھ یہاں وہاں بھی ہے
چمک رہی ہے جو آئندگاں کی راہ گزر
کچھ اس میں روشنی گرد رفتگاں بھی ہے
تم اس قدر بھی خرابہ نہ جانو دل کو مرے
کسی فقیر کا اس دشت میں مکاں بھی ہے
ٹھہر گئی ہے کہر سی فضائے مبہم میں
سحر کی دھند بھی ہے رات کا دھواں بھی ہے
ہماری خاک سے زیبائش عدم ہی نہیں
ہماری خاک سے رنگیں یہ گلستاں بھی ہے
جس آئنہ میں وہ قد اپنا دیکھتا ہے شفقؔ
اس آئنہ میں تو کوتاہ آسماں بھی ہے

غزل
یہ کیا کہ میرے یقیں میں ذرا گماں بھی ہے
شفق سوپوری