یہ کیا حالت بنا رکھی ہے یہ آثار کیسے ہیں
بہت اچھا بھلا چھوڑا تھا اب بیمار کیسے
وہ مجھ سے پوچھنے آئی ہے کچھ لکھا نہیں مجھ پر
میں اس کو کیسے سمجھاؤں مرے اشعار کیسے ہیں
مری سوچیں ہیں کیسی کون ان سوچوں کا مرکز ہے
جو میرے ذہن میں پلتے ہیں وہ افکار کیسے ہیں
مرے دل کا الاؤں آج تک دیکھا نہیں جس نے
وہ کیا جانے کہ شعلے صورت اظہار کیسے ہیں
یہ منطق کون سمجھے گا کہ یخ کمرے کی ٹھنڈک میں
مرے الفاظ کے ملبوس شعلہ بار کیسے ہیں
ذرا سی ایک فرمائش بھی پوری کر نہیں سکتے
محبت کرنے والے لوگ بھی لاچار کیسے ہیں
جدائی کس طرح برتاؤ ہم لوگوں سے کرتی ہے
مزاجاً ہم سخنور بے دل و بے زار کیسے ہیں
غزل
یہ کیا حالت بنا رکھی ہے یہ آثار کیسے ہیں
اعتبار ساجد