یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے
کہ زلف یار پر خم ہو گئی ہے
ٹپک پڑتے ہیں وقت صبح آنسو
یہ عادت مثل شبنم ہو گئی ہے
بظاہر گرم ہے بازار الفت
مگر جنس وفا کم ہو گئی ہے
زہے تاثیر کوئے خاک جاناں
مرے زخموں پہ مرہم ہو گئی ہے
بس اے دست اجل کچھ رحم بھی کر
کہ دنیا بزم ماتم ہو گئی ہے
نہیں خوف شب ہجراں مجھے اب
مری غم خوار و ہم دم ہو گئی ہے
یہی حالت ہے اک مدت سے محرومؔ
طبیعت خوگر غم ہو گئی ہے
غزل
یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے
تلوک چند محروم