یہ کس کے حسن کی جلوہ گری ہے
جہاں تک دیکھتا ہوں روشنی ہے
اگر ہوتے نہیں حساس پتھر
تری آنکھوں میں یہ کیسی نمی ہے
یقیں اٹھ جائے اپنے دست و پا سے
اسی کا نام لوگو خودکشی ہے
اگر لمحوں کی قیمت جان جائیں
ہر اک لمحہ میں پوشیدہ صدی ہے
تجھے بھی منہ کے بل گرنا پڑے گا
ابھی تو سر سے ٹوپی ہی گری ہے
تعلق تجھ سے رکھ کر اتنا سمجھے
ہماری سانپ سے بھی دوستی ہے

غزل
یہ کس کے حسن کی جلوہ گری ہے
سعید اختر