EN हिंदी
یہ جوش غم ہے کہ سینہ میں خوں ابلتا ہے | شیح شیری
ye josh-e-gham hai ki sine mein KHun ubalta hai

غزل

یہ جوش غم ہے کہ سینہ میں خوں ابلتا ہے

مرزا رضا قلی آشفتہ

;

یہ جوش غم ہے کہ سینہ میں خوں ابلتا ہے
نہ رکھیو ہاتھ کلیجہ پہ میرے جلتا ہے

نہ پوچھو دل کی حقیقت تمہارے عشق میں آہ
اسے وہ غم جو لگا ہے اسی میں گلتا ہے

یہ ہم کو اس کی جوانی نے اور ایذا دی
کہ رات دن کوئی سینے میں دل کو ملتا ہے

کسی کے کان کا در دیکھا تو نے آشفتہؔ
جو اشک آنکھوں سے موتی سا تیرے ڈھلتا ہے