یہ جوش غم ہے کہ سینہ میں خوں ابلتا ہے
نہ رکھیو ہاتھ کلیجہ پہ میرے جلتا ہے
نہ پوچھو دل کی حقیقت تمہارے عشق میں آہ
اسے وہ غم جو لگا ہے اسی میں گلتا ہے
یہ ہم کو اس کی جوانی نے اور ایذا دی
کہ رات دن کوئی سینے میں دل کو ملتا ہے
کسی کے کان کا در دیکھا تو نے آشفتہؔ
جو اشک آنکھوں سے موتی سا تیرے ڈھلتا ہے

غزل
یہ جوش غم ہے کہ سینہ میں خوں ابلتا ہے
مرزا رضا قلی آشفتہ