EN हिंदी
یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار | شیح شیری
ye jo insan KHuda ka hai shahkar

غزل

یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار

نظیر صدیقی

;

یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار
اس کی قسمت پہ ہے خدا کی مار

مرگ دشمن کی آرزو ہی سہی
دل سے نکلے کسی طرح تو غبار

نام بدنام ہو چکا حضرت
کیجیے اب تو جرم کا اقرار

ہوگا دونوں کا خاتمہ بالخیر
اب تصادم میں ہے نہ جیت نہ ہار

بک چکی جنس نادر و نایاب
ہو چکی ختم گرمئ بازار

اتفاقی ہے دو دلوں کا ملاپ
کون سنتا ہے ورنہ کس کی پکار

حسن والوں کا پوچھنا کیا ہے
جتنے دل کش ہیں اتنے دل آزار

جینا مرنا ہے بن پڑے کی بات
نہ یہ آسان اور نہ وہ دشوار

کس کو پروا کہ ان پہ کیا گزری
زندگی سے جو ہو گئے بیزار

ملتفت خود نہ ہو اگر کوئی
آہ بے سود اور فغاں بیکار

پر سکوں نیند چاہتے ہو نظیرؔ
ساتھ لانا تھا قسمت‌ بیدار