یہ جو ہم اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں
عظمت رفتہ کے آداب لیے پھرتے ہیں
دیکھ کر ان کو لرز جاتی ہے ہر موج بلا
اپنی کشتی میں جو گرداب لیے پھرتے ہیں
تیر کتنے ہیں لعیں اور ترے ترکش میں
دیکھ ہم سینۂ بیتاب لیے پھرتے ہیں
دیکھنا ان کو بھی ڈس لے گی کڑے وقت کی دھوپ
وہ جو کچھ خواہش شاداب لیے پھرتے ہیں
اپنی تہذیب کا اب کوئی طلب گار نہیں
بے سبب ہم پر سرخاب لیے پھرتے ہیں
میرا بھی کاسۂ تعبیر ہے خالی خالی
وہ بھی آنکھوں میں کئی خواب لیے پھرتے ہیں
تیرگی شہر غزالاں سے نکلتی ہی نہیں
لاکھ وہ صورت مہتاب لیے پھرتے ہیں
یہ تو صدقہ ہے حسینؔ ابن علی کا اخترؔ
تشنگی ہم جو سر آب لیے پھرتے ہیں
غزل
یہ جو ہم اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں
سلطان اختر