یہ جل جاتے ہیں لب تک آہ بھی آنے نہیں دیتے
مدد کے واسطے آواز پروانے نہیں دیتے
کہیں پر ذکر ان کا بھی نہ آ جائے اسی ڈر سے
وہ روداد محبت ہم کو دہرانے نہیں دیتے
مرے بچے بھی میری ہی طرح خوددار ہیں شاید
خیال مفلسی مجھ کو کبھی آنے نہیں دیتے
چلے ہو مے کشو پینے مگر تم ہوش مت کھونا
کسی کو راستہ گھر کا یہ میخانے نہیں دیتے
وہ جس کے حسن کی تاریخ تم نے خود ہی لکھی تھی
وہی تصویر کیوں دنیا کو دکھلانے نہیں دیتے
وسیمؔ انصار نے ایسے ستم ڈھائے مہاجر پر
کہ ہم ہجرت کا لب پر نام بھی آنے نہیں دیتے

غزل
یہ جل جاتے ہیں لب تک آہ بھی آنے نہیں دیتے
وسیم مینائی