یہ جاں گداز سفر دام خواب ہو نہ کہیں
رواں ہے جس میں سفینہ سراب ہو نہ کہیں
یوں ہی اترتا نہ جا سرد گہرے پانی میں
چمکتا ہے جو بہت سحر آب ہو نہ کہیں
کھڑا جو جھانکتا ہے کب سے گرم کمروں میں
گلی میں ٹھٹھرا ہوا ماہتاب ہو نہ کہیں
ہوا یہ کون سی چلتی ہے آر پار مرے
کھلا ہوا کسی خواہش کا باب ہو نہ کہیں
دلوں پہ کیوں نہیں کرتیں اثر تری باتیں
زمیں تو ٹھیک ہے پانی خراب ہو نہ کہیں
غبار سے بھری بوجھل فضا ہے دل پہ محیط
گرج رہا ہے جو سر میں سحاب ہو نہ کہیں
سجائے پھرتا ہے وہ جس کو کوٹ پر شاہیںؔ
مرے ہی خوں کا مہکتا گلاب ہو نہ کہیں
غزل
یہ جاں گداز سفر دام خواب ہو نہ کہیں
جاوید شاہین