یہ حکم ہے کہ اندھیرے کو روشنی سمجھو
ملے نشیب تو کوہ و دمن کی بات کرو
نہیں ہے مے نہ سہی چشم التفات تو ہے
نئی ہے بزم طریق کہن کی بات کرو
فریب خوردۂ منزل ہیں ہم کو کیا معلوم
بہ طرز راہبری راہزن کی بات کرو
خزاں نے آ کے کہا میرے غم سے کیا حاصل
جہاں بہار لٹی اس چمن کی بات کرو
قدم قدم پہ فروزاں ہیں آنسوؤں کے چراغ
انہیں بجھاؤ تو صبح وطن کی بات کرو
بہار آئے تو چپ چاپ ہی گزر جائے
نہ رنگ و بو کی نہ سرو و سمن کی بات کرو
غزل
یہ حکم ہے کہ اندھیرے کو روشنی سمجھو
زہرا نگاہ