EN हिंदी
یہ حوصلہ تجھے مہتاب جاں ہوا کیسے | شیح شیری
ye hausla tujhe mahtab-e-jaan hua kaise

غزل

یہ حوصلہ تجھے مہتاب جاں ہوا کیسے

کشور ناہید

;

یہ حوصلہ تجھے مہتاب جاں ہوا کیسے
کہ خود کو سائے سے منہا کیا بتا کیسے

نظر تو کیا کہ یہ مینائے دل بھی خالی ہے
لگے گا شہر میں بازار خوں بہا کیسے

مجھے خبر ہے کہ موسم نہیں یہ خواہش کا
مرے لبوں پہ یہ ٹھہرا ہے ذائقہ کیسے

خدائی نوحہ کناں تھی کہ آج منبر پہ
یہ تجھ کو آیا نظر کیا مرے سوا کیسے

تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں
ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے

قفس میں میری پناہوں کو دیکھ حیراں تھا
کہ میرے دل میں تھا مقتل کا زائچہ کیسے

ہوا سے جیسے چراغوں کی لو بھڑکتی ہے
بہت دنوں میں تجھے دیکھ کے ہنسا کیسے