یہ ہم کو کون سی دنیا کی دھن آوارہ رکھتی ہے
کہ خود ثابت قدم رہ کر ہمیں سیارہ رکھتی ہے
اگر بجھنے لگیں ہم تو ہوائے شام تنہائی
کسی محراب میں جا کر ہمیں دوبارہ رکھتی ہے
چلو ہم دھوپ جیسے لوگ ہی اس کو نکال آئیں
سنا ہے وہ ندی تہہ میں کوئی مہ پارہ رکھتی ہے
ہمیں کس کام پر مامور کرتی ہے یہ دنیا بھی
کہ ترسیل غم دل کے لیے ہرکارہ رکھتی ہے
کبھی سر پھوڑنے دیتی نہیں دیوار سے تابشؔ
یہ کیا دیوانگی ہے جو ہمیں ناکارہ رکھتی ہے
غزل
یہ ہم کو کون سی دنیا کی دھن آوارہ رکھتی ہے
عباس تابش