یہ غم نہیں کہ خوشی میں بھی کچھ مزا نہ رہا
ہمیں یہ غم ہے کہ اب غم بھی جاں فزا نہ رہا
وہ خواب تھا کہ جئیں دل کی آرزو کے لیے
یہ واقعہ ہے کہ مرنے کا حوصلہ نہ رہا
نہ کوئی یار نہ کوئی دیار کیا کیجے
سوائے سانس کے اب کوئی سلسلہ نہ رہا
زبان کانٹوں کی پیاسی رہے رہے نہ رہے
ہمارے پاؤں میں جب کوئی آبلہ نہ رہا
بس ایک ارض و سما رہ گئے ہیں لے دے کے
سوائے ان کے کوئی اپنا آشنا نہ رہا
ہزار نقش بنا اور ہزار نقش مٹا
کسی ورق پہ حقیقت کا ماجرا نہ رہا
غزل
یہ غم نہیں کہ خوشی میں بھی کچھ مزا نہ رہا
خورشید الاسلام

