یہ دشت شوق کا لمبا سفر اچھا نہیں لگتا
مگر ٹھہروں کہاں کوئی شجر اچھا نہیں لگتا
یہی اک بات اب میں سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
نہ جانے کیوں مجھے اب تیرا در اچھا نہیں لگتا
کرم کرتے نہیں کیوں تم مرے قلب شکستہ پر
مرا یوں غم زدہ رہنا اگر اچھا نہیں لگتا
نگاہوں سے جو اوجھل اس گل رعنا کا جلوہ ہے
یہ رنگ شام یہ رنگ سحر اچھا نہیں لگتا
ادھر وہ بھی بچھڑ کے ہم سے کھوئے کھوئے رہتے ہیں
اکیلا مجھ کو بھی رہنا ادھر اچھا نہیں لگتا
اٹھی ہے جب سے یہ دیوار نفرت دل کے آنگن میں
مجھے اے دوستو خود اپنا گھر اچھا نہیں لگتا

غزل
یہ دشت شوق کا لمبا سفر اچھا نہیں لگتا
ظفر انصاری ظفر