یہ بزدلی تھی ہماری بہادری نہ ہوئی
ہزار چاہا مگر پھر بھی خود کشی نہ ہوئی
کچھ اس طرح سے خیالوں کی روشنی پھیلی
تمہاری زلف بھی بکھری تو تیرگی نہ ہوئی
یہ بے حسی تھی رگ و پے میں اپنے وصل کی شب
حسین پاس رہے ہم سے دل لگی نہ ہوئی
وہ تیرگی تھی مسلط فضائے عالم پر
لہو کے دیپ جلے پھر بھی روشنی نہ ہوئی
کسی کے درد کو میں جانتا بھلا کیوں کر
خود اپنے درد سے جب مجھ کو آگہی نہ ہوئی
پکاریں فخرؔ کسے دام و دد کسے انساں
جہاں میں ہم کو تو اتنی تمیز بھی نہ ہوئی

غزل
یہ بزدلی تھی ہماری بہادری نہ ہوئی
فخر زمان