یہ بھی ہوا کہ فائلوں کے درمیاں ملیں
مجھ کو کہاں کہاں مری تنہائیاں ملیں
فریاد میری دفتروں میں گونجتی رہی
ردی کے ڈھیر میں مری سب عرضیاں ملیں
ہم آئنوں کے شہر میں نکلے تھے سیر کو
ہر گام چند اجنبی پرچھائیاں ملیں
پھیکے تبسموں سے سجے کچھ محل ملے
اور قہقہوں میں ڈوبی ہوئی جھگیاں ملیں
چھوٹا سا شہر ہی سہی لیکن یہاں مجھے
صحرا ملے سراب ملے دوریاں ملیں
جانے سے پہلے ملنے کی خواہش رہی اسے
جانے کے بعد اس کی مجھے چھٹیاں ملیں

غزل
یہ بھی ہوا کہ فائلوں کے درمیاں ملیں
سبودھ لال ساقی