یہ اور بات کہ تاخیر سے الگ کروں گا
مگر تجھے تری تصویر سے الگ کروں گا
مسافرت سے جو فرصت ہوئی نصیب تو پھر
تھکن کو پاؤں کی زنجیر سے الگ کروں گا
جو میرے دائمی احساس سے جڑا ہے سبق
میں کس طرح اسے تحریر سے الگ کروں گا
کنوارے خواب ہوئے جا رہے ہیں آوارہ
انہیں میں لذت تعبیر سے الگ کروں گا
اتارنا ہے مجھے اب انا کو موت کے گھاٹ
سو اس کو لہجۂ شمشیر سے الگ کروں گا
مرے بدن میں لگی ہے جو ہجر کی دیمک
میں اس کو وصل کی تدبیر سے الگ کروں گا
روایتوں سے رکھوں گا میں فیضؔ رشتہ مگر
سخن ذرا سا تقی میرؔ سے الگ کروں گا

غزل
یہ اور بات کہ تاخیر سے الگ کروں گا
فیض خلیل آبادی