یہ آنے والا زمانہ ہمیں بتائے گا
وہ گھر بنائے گا اپنا کہ گھر بسائے گا
میں سارے شہر میں بدنام ہوں خبر ہے مجھے
وہ میرے نام سے کیا فائدہ اٹھائے گا
پھر اس کے بعد اجالے خریدنے ہوں گے
ذرا سی دیر میں سورج تو ڈوب جائے گا
ہے سیرگاہ یہ کچی منڈیر سانپوں کی
یہاں سے کیسے کوئی راستہ بنائے گا
سنائی دیتی نہیں گھر کے شور میں دستک
میں جانتا ہوں جو آئے گا لوٹ جائے گا
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ان اڑانوں میں
وہ اپنے گاؤں کی مٹی کو بھول جائے گا
ہزاروں روگ تو پالے ہوئے ہو تم نظمیؔ
بچانے والا کہاں تک تمہیں بچائے گا
غزل
یہ آنے والا زمانہ ہمیں بتائے گا
اختر نظمی