EN हिंदी
یہ آہ و فغاں کیوں ہے دل زار کے آگے | شیح شیری
ye aah-o-fughan kyun hai dil-e-zar ke aage

غزل

یہ آہ و فغاں کیوں ہے دل زار کے آگے

ثاقب لکھنوی

;

یہ آہ و فغاں کیوں ہے دل زار کے آگے
کہتے ہیں کہ روتے نہیں بیمار کے آگے

پھر موت کا ہے سامنا اللہ بچائے
پھر دل لیے جاتا ہے ستم گر کے آگے

بکنے کے لیے آپ نہ بازار میں آئے
بھجوا دیا یوسف کو خریدار کے آگے

منعم کو مبارک یہ نقیب اور جلو دار
اللہ ہی اللہ ہے نادار کے آگے

ضد کرتے ہو کیوں تیر نہ پہنچیں گے ہدف تک
ارمان ہزاروں ہیں دل زار کے آگے

سرگرم سخن ہوں دل وارفتہ سے اس طرح
جیسے کوئی باتیں کرے دیوار کے آگے