یقین صبح چمن ہے کتنا شعور ابر بہار کیا ہے
سوال کرتے ہیں دشت و دریا کہ قافلے کا وقار کیا ہے
جو چل پڑے جادۂ وفا پر انہیں غم روزگار کیا ہے
صعوبتوں کے پہاڑ کیا ہیں تمازتوں کا غبار کیا ہے
یہیں پہ منزل کریں گے راہی یہیں پہ سب قافلے رکیں گے
ٹھہر ذرا شوق صبر دشمن یہ درد بے اختیار کیا ہے
نصیب فردا پہ شادماں ہیں جنوں کے ماروں سے کوئی پوچھے
یہ کیوں گریباں ہے ٹکڑے ٹکڑے یہ دامن تار تار کیا ہے
نہ ان کا جادہ نہ کوئی منزل نہ نور و ظلمت کا فرق جانیں
انہیں خبر کیا کہ ہے سحر کیا اندھیری شب کا خمار کیا ہے
غزل
یقین صبح چمن ہے کتنا شعور ابر بہار کیا ہے
عرشی بھوپالی