یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
ہوا ہے گو اشتیاق بے حد جما کے پائے نظر کو چلئے
ہوئے ہیں محروم دید بے دل کیا تجاہل کا اس نے بسمل
وہ دل ربا بن گیا ہے قاتل کمر کو کس کے سفر کو چلئے
غرض تھی اظہار مدعا سے ستم کو کیا ہو گئے جو شاکی
وہ دیکھتے ہی بگڑ نہ جائیں بلانے اب نامہ بر کو چلئے
بنا ہے دم ساز کون ان کا پتہ نہیں مدتوں سے لگتا
یہ راز ہو جائے آشکارا کہیں سے لینے خبر کو چلئے
اگر ہے شوق جمال جاناں نہیں ہے کچھ پاس وضع موزوں
شکوہ تمکیں وداع کیجے منانے اس عشوہ گر کو چلئے
شہید ہے ساقیؔٔ دعا گو کشیدہ کیوں اس قدر ہوئے ہو
کبھی تو اے یار دیکھنے کو ذرا قتیل نظر کو چلئے
غزل
یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
پنڈت جواہر ناتھ ساقی