یہی سنتے آئے ہیں ہم نشیں کبھی عہد شوق کمال میں
کوئی شہر شہر وفا بھی تھا اسی سر زمین خیال میں
مرے دل کے خون کی مثل تھا تجھے یاد ہے مرے دل ربا
کوئی رنگ رنگ حنا بھی تھا ترے نقش ہائے جمال میں
نہ وہ جھانکنا ہے گلی گلی نہ وہ تاکنا ہے کلی کلی
نہ کسک ہے ہجر کے درد میں نہ دمک ہے شوق وصال میں
کوئی اک چمک مرے دل کو دے کہ سفر حدود زماں کا ہے
کوئی ایک ساعت روشنی مری گردش مہ و سال میں
مجھے شرق و غرب سے کام کیا کہ مقام شوق گزر گیا
یہ کھلائے دل کے ہیں دائرے یہ سفر ہے اب مرا حال میں
وہ جو راہ ظلم پہ آندھیوں میں چراغ لے کے نکل پڑے
وہ زوال عصر کے سر بلند کہاں ہیں عصر زوال میں
یہ جو تیرگی کا طلسم ہے یہی روشنی کا بھی اسم ہے
ہوا باقرؔ آپ کے قول کا بھی شمار قول محال ہے

غزل
یہی سنتے آئے ہیں ہم نشیں کبھی عہد شوق کمال میں (ردیف .. ے)
سجاد باقر رضوی