EN हिंदी
یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں | شیح شیری
yahan to qafile bhar ko akela chhoD dete hain

غزل

یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں

شجاع خاور

;

یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
سبھی چلتے ہوں جس پر ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں

قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے
ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں

کبھی سیراب کر جاتا ہے ہم کو ابر کا منظر
کبھی ساون برس کر بھی پیاسا چھوڑ دیتے ہیں

زمیں کے مسئلوں کا حل اگر یوں ہی نکلتا ہے
تو لو جی آج سے ہم تم سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں

مہذب دوست آخر ہم سے برہم کیوں نہیں ہوں گے
سگ اظہار کو ہم بھی تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں

جو زندہ ہو اسے تو مار دیتے ہیں جہاں والے
جو مرنا چاہتا ہو اس کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں

مکمل خود تو ہو جاتے ہیں سب کردار آخر میں
مگر کم بخت قاری کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں

وہ ننگ آدمیت ہی سہی پر یہ بتا اے دل
پرانے دوستوں کو اس طرح کیا چھوڑ دیتے ہیں

یہ دنیا داری اور عرفان کا دعویٰ شجاعؔ خاور
میاں عرفان ہو جائے تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں