یہاں بغیر فغاں شب بسر نہیں ہوتی
وہاں اثر نہیں ہوتا خبر نہیں ہوتی
خلش جگر میں ہے دل کو خبر نہیں ہوتی
چبھی ہے پھانس ادھر سے ادھر نہیں ہوتی
عبث ہی کل کے لئے التوائے مشق خرام
قیامت آج ہی کیوں فتنہ گر نہیں ہوتی
جو ان سے دور ہے اس کے لئے ہیں چشم براہ
ہم ان کے پاس ہیں ہم پر نظر نہیں ہوتی
اجل کو روکئے کیا کہہ کے ان کے آنے تک
کہ اب تو بات بھی اے چارہ گر نہیں ہوتی
وہ آ گئے ہیں تو آنسو ضرور پونچھیں گے
اب آنکھ کیوں مری اشکوں سے تر نہیں ہوتی
کمال بے ہنری سے غنی ہوں میں احسنؔ
مجھے ضرورت عرض ہنر نہیں ہوتی
غزل
یہاں بغیر فغاں شب بسر نہیں ہوتی
احسن مارہروی