یادوں کی دیوار گراتا رہتا ہوں
میں پانی سے آنکھ بچاتا رہتا ہوں
ساحل پہ کچھ دیر اکیلے ہوتا ہوں
پھر دریا سے ہاتھ ملاتا رہتا ہوں
یادوں کی برسات تو ہوتی رہتی ہے
میں آنکھوں سے خواب گراتا رہتا ہوں
ساحرؔ کی ہر نظم سنا کر مجنوں کو
میں صحرا کا درد بڑھاتا رہتا ہوں
دنیا والے مجھ کو پاگل کہتے ہیں
میں سورج سے آنکھ ملاتا رہتا ہوں
پتھر وتھر مجھ سے نفرت کرتے ہیں
میں اندھوں کو راہ دکھاتا رہتا ہوں
میرے پیچھے قیس کی آنکھیں پڑ گئی ہیں
دریا دریا پیاس بجھاتا رہتا ہوں
مجھ کو دشت سکوت صدائیں دیتا ہے
صحرا صحرا خاک اڑاتا رہتا ہوں
مجھ کو میرے نام سے جانا جاتا ہے
میں رضویؔ کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہوں
غزل
یادوں کی دیوار گراتا رہتا ہوں
شہباز رضوی