یاد کے تہوار میں وصل و وفا سب چاہئے
رات کے ریشم میں لپٹی آپ کی چھب چاہئے
پھر حلاوت سے چھلکتے جام خالی ہو گئے
پھر غزل کو آپ کی شیرینیٔ لب چاہئے
رات کی وادی میں ساری رونقیں آباد ہیں
دن کے ویرانے میں بھی اک گلشن شب چاہئے
سوچ اور الفاظ کی بے چینیوں میں کچھ بھی ہو
بات کی تہہ سے نکلتا صاف مطلب چاہئے
روشنی کی جبر نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا
اب بصارت کے لیے کچھ ظلمت شب چاہئے
رسم کی یکسانیت نیت کا پردہ بن گئی
جو منافق کا نہ ہو ایسا بھی مذہب چاہئے
اپنے غم کی الجھنیں سلجھاؤ گے کب تک منیرؔ
درد عالم گیر ہو جائے یہی اب چاہئے

غزل
یاد کے تہوار میں وصل و وفا سب چاہئے
سید منیر