یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
دل بیچتا ہوں کوئی خریدار بھیج دے
اپنی بساط میں تو یہی دل ہے میری جاں
لیتا نہیں تو کیا کروں اے یار بھیج دے
دعویٰ جو برشگال کو آنکھوں سے ہے مری
ایسا کوئی جو ابر گہربار بھیج دے
دیتے ہیں عقد حسن میں عاشق عروس جاں
آتا نہیں جو آپ تو تلوار بھیج دے
سوداؔ سے غم گسار کا تھا دل یہ تیں لیا
اس کے عوض بھلا کوئی غم خوار بھیج دے

غزل
یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
محمد رفیع سودا