وفور شوق کی رنگیں حکایتیں مت پوچھ
لبوں کا پیار نگہ کی شکایتیں مت پوچھ
کسی نگاہ کی نس نس میں تیرتے نشتر
وہ ابتدائے محبت کی راحتیں مت پوچھ
وہ نیم شب وہ جواں حسن وہ وفور نیاز
نگاہ و دل نے جو کی ہیں عبادتیں مت پوچھ
ہجوم غم میں بھی جینا سکھا دیا ہم کو
غم جہاں کی ہیں کیا کیا عنایتیں مت پوچھ
یہ صرف ایک قیامت ہے چین کی کروٹ
دبی ہیں دل میں ہزاروں قیامتیں مت پوچھ
بس ایک حرف بغاوت زباں سے نکلا تھا
شہید ہو گئیں کتنی روایتیں مت پوچھ
اب آج قصۂ دارا و جم کا کیا ہوگا
ہمارے پاس ہیں اپنی حکایتیں مت پوچھ
نشان ہٹلری و قیصری نہیں ملتا
جو عبرتوں نے لکھی ہیں عبارتیں مت پوچھ
نشاط زیست فقط اہل غم کی ہے میراث
ملیں گی اور ابھی کتنی دولتیں مت پوچھ
غزل
وفور شوق کی رنگیں حکایتیں مت پوچھ
علی سردار جعفری