وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
اڑتی ہوئی ناگن قد آدم نظر آئی
ہے پنجۂ رنگیں میں ہمارا دل بے تاب
یہ آگ تو سیماب سے باہم نظر آئی
آغاز میں ہستی کی اجل آ گئی اے دل
جو چیز مؤخر تھی مقدم نظر آئی
شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کے پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی
مجروح کیا الفت ابرو نے دم حج
محراب حرم ناخن ضیغم نظر آئی
ادنیٰ ہے یہ اے جان سراپے کی لطافت
پرچھائیں تری حور مجسم نظر آئی
زنجیر پہننے سے ہوا قیدیوں کا نام
ہر ایک کڑی حلقۂ خاتم نظر آئی
توبہ کی مگر نشہ سے اس حور شیم نے
کیوں آتش مے نار جہنم نظر آئی
تم بالوں کو کھولے ہوے گلشن میں جو آئے
ہر شاخ شجر زلف نمط خم نظر آئی
بد ظن نہ ہو کس طرح منیرؔ آج خدارا
مسکی ہوئی اے بت تری محرم نظر آئی
غزل
وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
منیرؔ شکوہ آبادی