EN हिंदी
وہ سردی سے ٹھٹھرتا ہے نہ گرمی ہی ستاتی ہے | شیح شیری
wo sardi se TheThurta hai na garmi hi satati hai

غزل

وہ سردی سے ٹھٹھرتا ہے نہ گرمی ہی ستاتی ہے

مصور فیروزپوری

;

وہ سردی سے ٹھٹھرتا ہے نہ گرمی ہی ستاتی ہے
یہ موسم ہار جاتے ہیں غریبی جیت جاتی ہے

مرے رہبر ہٹا چشمہ تجھے منظر دکھاتا ہوں
یہ ٹولی بھوکے بچوں کی غضب تھالی بجاتی ہے

مرے رب چاند پونم کا ذرا چورس ہی کر دے تو
گولائی دیکھتا ہوں میں تو روٹی یاد آتی ہے

یہ منظر دیکھتا ہوں میں تو آنکھیں ڈوب جاتی ہیں
وہ ننھی گود سی گڑیا کسی کا بوجھ اٹھاتی ہے